Saturday, August 25, 2007

یہ ہماری اردو زبان، چہارم

یہ خیال صرف ہری چند اور دوسرے ادیبوں تک محدود نہ تھا کہ انسانوں کے کسی گروہ کے ایک قوم بننے کے لیے ضروری ہے کہ وہ ایک زبان کو اختیار کریں اور ریاست کے ساتھ ان کا رابطہ اسی زبان کے وسیلے سے ہو۔

تمام نمایاں سیاستدان اور سیاسی گروہ اسی بنیادی خیال کے حامل تھے۔ گاندھی کا خیال تھا کہ یہ زبان محض ’ہندوستانی‘ ہو سکتی ہے (ان کے مختلف بیانات میں اس نکتے پر بہت الجھاؤ ہیں کہ ’ہندوستانی‘ سے ان کی مراد اردو تھی یا ہندی یا دونوں سے ملا کر بنائی گئی کوئی تیسری زبان جو انتظامی تقاضوں کو بھی پورا کر سکے)۔

محمد علی جناح نے پاکستان کے گورنر جنرل کی حیثیت سے بارہ مارچ انیس سو اڑتالیس کو ڈھاکہ میں جو مشہور خطاب کیا، اس میں ان کا کہنا تھا کہ ’سیاست کی کسی واحد زبان کے بغیر کوئی قوم مضبوطی سے متحد نہیں رہ سکتی نہ کام کر سکتی ہے‘۔

اس اعلان کے بعد سے انیس سو اکہتر کے واقعات تک پاکستان کی تاریخ جن راستوں سے گزری، ان پر نگاہ ڈالتے ہوئے یہ نتیجہ نکالا جا سکتا ہے کہ واحد زبان پر اصرار ہی قوم کے اتحاد میں دراڑیں ڈالنے کا ایک سبب بنا۔

اگر برطانوی دور میں اردو اور ہندی کی کشمکش موجودہ اترپردیش کے علاقے کے ہندوؤں اور مسلمانوں میں منافرت کی بنیادی وجہ کے طور پر سامنے آئی، تو واحد قومی زبان کے موضوع پر رائے عامہ پر اثر انداز ہونے والے افراد کے ان خیالات نے ہندی اور اردو کا پرچار کرنے والوں میں اس رویے کو جنم دیا جسے ان کے مخالف گروہ ’ہندی امپیرئلزم‘ اور اردو ’شاونزم‘ کہتے ہیں۔

اپنی زبان کو پورے ملک کی زبان کے طور پر دیکھنے کے جوش نے ان میں اردو یا ہندی کی اہمیت اور صلاحیت کے بارے میں بعض مبالغہ آمیز خیالات پیدا کر دیے جن کا کوئی جواز نہ تھا۔

اس رویے کی بےشمار مثالوں میں سے ایک ہمیں مرزا حیرت دہلوی کی کتاب ’چراغ دہلی‘ کی ابتدا میں ان الفاظ میں ملتی ہے: ’ہندوستانی کہنے سے یہ بات معلوم ہو جائے گی کہ یہ زبان، جو اپنے دوسرے نام اردو کے ساتھ مشہور ہے، تمام ہندوستان کی زبان ہے۔ کسی زبان کی مجال نہیں کہ اس کو آنکھ بھر کے بھی دیکھ سکے‘۔

معلوم ہوتا ہے کہ اردو اور ہندی کی باہمی چپقلش نے دونوں زبانوں کا پرچار کرنے والوں کے ذہنوں میں یہ بات راسخ کر دی تھی کہ ان کی زبان کا کسی بھی دوسری زبان سے رشتہ صرف حریفانہ ہی ہو سکتا ہے۔

اس بات نے آگے چل کر ہندوستان اور پاکستان کی سیاست پر گہرے اثرات مرتب کیے۔

ہندوستان میں جس علاقے کو ’ہندی بیلٹ‘ کا نام دیا جاتا ہے وہ دہلی سے لے کر مشرق میں بنگال کی سرحد تک واقع ہے۔ اس علاقے نے، جس میں ہندوستان کی سب سے زیادہ آبادی والی ریاست اترپردیش بھی شامل ہے، اپنے سیاسی اثر و رسوخ کو لسانی یک رنگی کے فروغ کے لیے بھی استعمال کرنے کی کوشش کی۔

پاکستان کے قیام کے بعد یہاں کی سیاست میں یہی، بلکہ اس سے کہیں زیادہ فیصلہ کن اثر و رسوخ صوبہ پنجاب کو حاصل ہوا جہاں اردو ایک صدی سے زیادہ عرصے سے تعلیم اور نچلی سطح کی انتظامیہ کی زبان کے طور پر استعمال ہوتی رہی تھی۔

پاکستان کی سیاست میں لسانی یک رنگی پر اصرار اور بھی زیادہ شدید تھا کیونکہ کسی عجیب و غریب منطق کے ذریعے اردو زبان اختیار کرنے کو اسلام اور پاکستان سے وابستگی کی کسوٹی قرار دے دیا گیا تھا اور باقی زبانوں کو اس اعتبار سے اردو سے کمتر گردانا جاتا تھا۔

دونوں ملکوں میں ہندی اور اردو کو قومی یا سرکاری زبان کے طور پر اختیار کرنے کی کوششوں پر ایک نظر ڈالنے سے رویے کا وہ فرق بھی سامنے آ سکتا ہےجو ان ملکوں کی سیاست میں وفاقی نظام کے بارے میں رفتہ رفتہ پیدا ہوا۔

پریم چند کے پوتے آلوک رائے نے، جو معروف ادیب اور استاد ہیں، اپنی مختصر لیکن غیر معمولی انگریزی کتاب ’ہندی نیشنلزم‘ میں ہندوستان کی لسانی سیاست کا خاکہ پیش کیا ہے۔

ان کے مطابق انیس سو پچاس میں جب ہندوستان کا آئین تیار کیا جا رہا تھا، زبان کے مسئلے پر ہونے والی بحث نے اس قدر شدت اور تلخی اختیار کی کہ اس بحث کو اس وقت تک کے لیے ملتوی کرنے کا فیصلہ کرنا پڑا جب تک دوسرے اہم امور طے نہ کر لیے جائیں۔

جن علاقوں کی زبان ہندی نہیں تھی، خاص طور پر جنوبی ہندوستان کے علاقے، وہاں کے نمائندے ’ہندی والوں‘ کے اس دعوے کو تسلیم کرنے کو تیار نہ تھے کہ یہ زبان واحد قومی زبان کی حیثیت حاصل کرنے کی مستحق ہے۔

ایک طویل مباحثے کے بعد طے کیا گیا کہ ملک کی تمام بڑی زبانوں کو قومی زبانیں تسلیم کیا جائے، ہندی کو ’انڈین یونین کی سرکاری زبان‘ کہا جائے اور انگریزی کو ’مددگار اضافی سرکاری زبان‘ کی حیثیت حاصل ہو۔

تاہم ہندی کو یہ حیثیت عطا کرنے کا معاملہ پندرہ برس کے لیے ملتوی کر دیا گیا تاکہ اس عرصے میں ان لوگوں کو ہندی سکھائی جا سکے جو اس سے ناواقف ہیں۔

لیکن انیس سو پینسٹھ کی اس موعودہ تاریخ کے آنے تک ہندوستان میں وفاقی سیاست بہت سی منزلیں طے کر چکی تھی۔

انیس سو چھپن میں ہندوستانی ریاستوں کو لسانی بنیاد پر تشکیل دیا جا چکا تھا اور ان میں آباد گروہوں کی لسانی شناخت رفتہ رفتہ مستحکم ہو رہی تھی۔

’ہندی والے‘ بہرحال اس مبارک ساعت کے بےتابی سے منتظر تھے اور پورے ہندوستان کی زبان ہونے کے دعوے سے اردو کی دست برداری کے بعد انہیں سرکاری زبان کے طور پر اپنا حریف صرف انگریزی کی صورت میں دکھائی دیتا تھا۔

انیس سو ساٹھ کی دہائی کے ابتدائی برسوں میں ہندی بولنے والی ریاستوں میں ’انگریزی ہٹاؤ‘ کی تحریک شروع کی گئی۔

ہندی کے مخالفوں، خاص طور پر جنوبی ریاست تامل ناڈو کے لوگوں کو، اس تحریک میں پورے ملک پر ہندی کو مسلط کرنے کی کوشش دکھائی دی اور انہوں نے اس کی شدید مخالفت شروع کر دی۔

یہ مخالفت اس حد تک پہنچی کہ تامل ناڈو میں تشدد آمیز ہنگامے بھڑک اٹھے اور کئی افراد نے خود سوزی کر لی۔ اس مخالفت کے باعث انیس سو پینسٹھ میں ہندی کو آئین کی رو سے جو حیثیت حاصل ہونے والی تھی، اس کا نفاذ نہیں ہو سکا۔

بالآخر انیس سو سڑسٹھ میں کی جانے والی ایک آئینی ترمیم نے باقاعدہ طور پر یہ بات تسلیم کر لی کہ جب تک انڈین یونین کی ایک بھی ریاست اس کے خلاف رائے رکھتی ہے، ہندی کو واحد سرکاری زبان کا درجہ نہیں دیا جائے گا۔

No comments: