برصغیر کے تاریخ دانوں نے اس بات کی نشان دہی کی ہے کہ ان واقعات کی بنیاد جنھوں نے آگے چل کر انیس سو سینتالیس کی تقسیم کی راہ ہموار کی، اس وقت پڑگئی تھی جب موجودہ یوپی کےعلاقے میں نچلی سطح کی انتظامی زبان کے مسئلے پر مسلمانوں اور ہندوؤں کے درمیان کشمکش شروع ہوئی۔
یہ کشمکش اپنی ظاہری شکل میں مذہبی نہیں بلکہ لسانی تھی، لیکن اس سے یہ نتیجہ نکالنا غیر محتاط عمل ہوگا کہ مسلمانوں اور ہندوؤں کے اختلافات میں بنیادی حیثیت زبان کے مسئلے کو یا نچلی سطح کی سرکاری نوکریوں کے مسئلے کو حاصل تھی۔
حکمرانی کے نئے طریقوں کے رائج ہونے اور تعلیم کا چرچا عام ہونے کے نتیجے میں دنیا کے تمام خطوں کی طرح ہندوستان کے مختلف علاقوں میں بھی آبادی کے ہر قسم کے گروہوں میں اپنی شناخت کا احساس پیدا ہونا فطری عمل تھا، اوراس کے ساتھ ساتھ ان کےدرمیان باہمی اختلافات کا سامنے آنا بھی اسی عمل کا حصہ تھا۔
آج یہ سوچ کر حیرت ہوتی ہے کہ کس طرح ایک ایسا قضیہ جو کسی بھی طرح پورے ہندوستان پر بلکہ اس مخصوص علاقے کے تمام لوگوں پر بھی براہِ راست اثرانداز ہونے کی صلاحیت نہ رکھتا تھا، رفتہ رفتہ اتنی اہمیت اور شدت اختیار کرگیا کہ اس نے ہندو مسلم سیاست کے خدوخیال متعین کیے۔
ہندوستان کے کسی اور علاقے میں اردو اور ہندی کے درمیان اس قسم کی مسابقت نہ تھی۔ بنگال، گجرات، کیرالا، سندھ اور دوسرے بہت سے علاقوں میں مسلمانوں اور ہندوؤں کی زبان ایک تھی اور ان کے درمیان زبان کے مسئلے پرکوئی اختلاف نہ تھا،اگرچہ دوسرے بہت سے معاشرتی اور تہذیبی نوعیت کے اختلافات یقیناً موجود تھے۔
جہاں تک پنجاب کا تعلق ہے (جس میں مشرقی اور مغربی پنجاب کے علاوہ پورا موجودہ شمال مغربی سرحدی صوبہ بھی شامل تھا اور جہاں مسلمان مجموعی طرر پر اکثریت میں تھے) وہاں کی مقامی آبادی میں فیصلہ کرنے کی قوت جن لوگوں کے پاس تھی انہوں نے اپنی مادری زبانوں کے مقابلے میں اردو کو ابتدائی تعلیم اور نچلی انتظامی سطح پر سرکاری زبان کے طور پر اختیار کرلیا تھا اور اس علاقے میں اردو کو ہندی یا کسی مقامی زبان کی طرف سے کوئی چیلنج درپیش نہ تھا۔
اردو اور ہندی کا جھگڑا ہندوستان کی تقسیم کا بنیادی سبب تھا یا نہیں، یہ تاریخ سے اپنی اپنی پسند کا نتیجہ برآمد کرنے کے مترادف ہے، لیکن یہ بات آسانی سے محسوس کی جاسکتی ہے کہ اس اختلاف نے بہت سے ایسے رویوں کو جنم دیا جو بعد کے زمانے میں نہایت سخت جان ثابت ہوئے اور آج بھی موجودہیں۔ تاہم، اس قضیے کے دور رس اثرات کا جائزہ لینے سے پہلے یہ بات بھی غور کے قابل ہے کہ غیر ملکی نوآبادیاتی تسلط کے رفتہ رفتہ مستحکم ہوتے ہوئے احساس نےہندوستانی آبادی کے مختلف حصوں کو جس سیاسی نظریے کو اختیار کرنے کی طرف مائل کیا وہ قوم پرستی کا تصور تھا اور اس نے بھی برصغیر کے سیاسی ماحول کو ایک مخصوص طرز میں ڈھال دیا۔
مغربی تعلیم سے متعارف ہونے کے نتیجے میں قوم پرستی کے سیاسی نظریے نے ہندوستان کے تعلیم یافتہ طبقات کے تخیل کو متحرک کیا، کیونکہ یہی نظریہ یورپ کے ملکوں میں مقبول تھا اوراس میں ہندوستان کی آزادی کا روشن امکان دکھائی دیتا تھا۔ لیکن ان ملکوں میں سے کوئی بھی ہندوستان کے لیے نمونہ نہیں بن سکتا تھا کیونکہ کسی اور ملک کی آبادی میں مذہبی، نسلی، لسانی اور دیگر عوامل کی ایسی کثرت موجود نہیں تھی جیسی ہندوستان میں تھی۔ تاریخ نگاروں کی موجودہ نسل کے تجزیوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ قوم پرستی کے تصور سے تازہ تازہ آشنا ہونے کے باعث ہندوستان کے اُس وقت کے رہنما اس فرق کا پورا احساس کرنے سے قاصررہے۔
برصغیرکی کثیر گروہی آبادی کو یورپ کی قومی ریاست پر قیاس کرنے کے نتیجے میں یہ خیال پیدا ہوا کہ قومی ریاست کے طور پر کسی ملک کا استحکام اس بات پر منحصر ہے کہ اس کی رنگارنگی کو کسی نہ کسی طرح یک رنگی میں تبدیل کیا جاسکے۔ ایک لمبی کشمکش کے نتیجے میں غیر ملکی تسلط سے آزادی حاصل کرنے کے بعد تقسیم شدہ ہندوستان کے دونوں حصوں میں دیسی حکومتوں نے اپنا سفر اسی خیال کے سہارے شروع کیا۔
تاہم دونوں ملکوں کا تجربہ اس لحاظ سے مختلف رہا کہ جمہوریت کے عمل کے مسلسل جاری رہنے اور جمہوری اداروں کے مستحکم ہونے کے نتیجے میں ہندوستان نے یک رنگی کے اس غیر حقیقت پسندانہ خیال میں رفتہ رفتہ تبدیلی پیدا کی۔ دوسری طرف پاکستان میں جمہوریت کے جڑیں نہ پکڑپانے کے باعث، اور اقتدار پر بزورقابض ہوجانے والے طبقوں کے مفادات کو ترجیح حاصل ہونے کے سبب، یک رنگی پر اصرار جاری رہا اور اس نے اندوھناک نتائج پیدا کیے۔
برصغیر کے معاشرے کی رنگارنگی کے دوسرے پہلو ہماری موجودہ بحث سے خارج ہیں، لیکن یہ دیکھناخاصی دلچسپی کا باعث ہوگا کہ زبانوں کے معاملے میں یک رنگ قوم پرستی کے تصور نے کس قسم کےرویوں کو جنم دیا۔ گزشتہ دنوں مجھے اُردو اور ہندی کے پہلے بڑے افسانہ نگارمنشی پریم چند کی ایک تحریر کا اقتباس پڑھنے کا موقع ملا جس میں یہ رویہ بڑے نمایاں طور پر ظاہر ہے۔ ”اردو، ہندی اور ہندوستانی کچھ وچار” نامی مضمون میں پریم چند لکھتے ہیں:
’یہ بات سبھی لوگ مانتے ہیں کہ قوم کو مضبوط اور طاقتور بنانے کے لیے ملک میں تہذیبی اتحاد کا ہونا بہت ضروری ہے۔ اور قوم کی زبان اور اس کا رسم الخط اس تہذیبی اتحاد کا ایک خاص حصہ ہے۔ محترمہ خالدہ ادیب خانم نے اپنی ایک تقریر میں کہا تھا کہ ترک قوم اور ترکوں کے ملک کا اتحاد، ترکی زبان کے بغیر ممکن نہیں ہوسکتا تھا۔ اوراس بات میں کسی کو شبہ نہیں ہوسکتا کہ ایک قومی زبان کے بغیر کسی ملک کے وجود کا تصور ہی نہیں کیا جاسکتا۔ جب تک ہندوستان کی کوئی قومی زبان نہ ہو، تب تک وہ قومی شناخت کا دعویٰ نہیں کرسکتا‘۔
آج، اتنا عرصہ گزرنے پر یہ دیکھ لینا کچھ زیادہ مشکل نہیں کہ پریم چند نے ہندوستان سے موازنے کے لیے جس ملک کی مثال چنی وہ تہذیب، نسل یا زبان کی ہم آہنگی کے اعتبار سے ہندوستان سے یکسر مختلف تھا۔ بنگال، سندھ، کشمیر اور تامل جیسے متنوع علاقوں کو قومی زبان پر متحد کرنا عملی طور پر کس قدر ناممکن تصور ہے، اس حقیقت نے قوم پرستی کے اس رومانی بہاؤ میں کوئی خلل نہ ڈالا جو ہندوستان کی آزادی کی جدوجہد کے دنوں میں جاری وساری تھا۔
یہ کشمکش اپنی ظاہری شکل میں مذہبی نہیں بلکہ لسانی تھی، لیکن اس سے یہ نتیجہ نکالنا غیر محتاط عمل ہوگا کہ مسلمانوں اور ہندوؤں کے اختلافات میں بنیادی حیثیت زبان کے مسئلے کو یا نچلی سطح کی سرکاری نوکریوں کے مسئلے کو حاصل تھی۔
حکمرانی کے نئے طریقوں کے رائج ہونے اور تعلیم کا چرچا عام ہونے کے نتیجے میں دنیا کے تمام خطوں کی طرح ہندوستان کے مختلف علاقوں میں بھی آبادی کے ہر قسم کے گروہوں میں اپنی شناخت کا احساس پیدا ہونا فطری عمل تھا، اوراس کے ساتھ ساتھ ان کےدرمیان باہمی اختلافات کا سامنے آنا بھی اسی عمل کا حصہ تھا۔
آج یہ سوچ کر حیرت ہوتی ہے کہ کس طرح ایک ایسا قضیہ جو کسی بھی طرح پورے ہندوستان پر بلکہ اس مخصوص علاقے کے تمام لوگوں پر بھی براہِ راست اثرانداز ہونے کی صلاحیت نہ رکھتا تھا، رفتہ رفتہ اتنی اہمیت اور شدت اختیار کرگیا کہ اس نے ہندو مسلم سیاست کے خدوخیال متعین کیے۔
ہندوستان کے کسی اور علاقے میں اردو اور ہندی کے درمیان اس قسم کی مسابقت نہ تھی۔ بنگال، گجرات، کیرالا، سندھ اور دوسرے بہت سے علاقوں میں مسلمانوں اور ہندوؤں کی زبان ایک تھی اور ان کے درمیان زبان کے مسئلے پرکوئی اختلاف نہ تھا،اگرچہ دوسرے بہت سے معاشرتی اور تہذیبی نوعیت کے اختلافات یقیناً موجود تھے۔
جہاں تک پنجاب کا تعلق ہے (جس میں مشرقی اور مغربی پنجاب کے علاوہ پورا موجودہ شمال مغربی سرحدی صوبہ بھی شامل تھا اور جہاں مسلمان مجموعی طرر پر اکثریت میں تھے) وہاں کی مقامی آبادی میں فیصلہ کرنے کی قوت جن لوگوں کے پاس تھی انہوں نے اپنی مادری زبانوں کے مقابلے میں اردو کو ابتدائی تعلیم اور نچلی انتظامی سطح پر سرکاری زبان کے طور پر اختیار کرلیا تھا اور اس علاقے میں اردو کو ہندی یا کسی مقامی زبان کی طرف سے کوئی چیلنج درپیش نہ تھا۔
اردو اور ہندی کا جھگڑا ہندوستان کی تقسیم کا بنیادی سبب تھا یا نہیں، یہ تاریخ سے اپنی اپنی پسند کا نتیجہ برآمد کرنے کے مترادف ہے، لیکن یہ بات آسانی سے محسوس کی جاسکتی ہے کہ اس اختلاف نے بہت سے ایسے رویوں کو جنم دیا جو بعد کے زمانے میں نہایت سخت جان ثابت ہوئے اور آج بھی موجودہیں۔ تاہم، اس قضیے کے دور رس اثرات کا جائزہ لینے سے پہلے یہ بات بھی غور کے قابل ہے کہ غیر ملکی نوآبادیاتی تسلط کے رفتہ رفتہ مستحکم ہوتے ہوئے احساس نےہندوستانی آبادی کے مختلف حصوں کو جس سیاسی نظریے کو اختیار کرنے کی طرف مائل کیا وہ قوم پرستی کا تصور تھا اور اس نے بھی برصغیر کے سیاسی ماحول کو ایک مخصوص طرز میں ڈھال دیا۔
مغربی تعلیم سے متعارف ہونے کے نتیجے میں قوم پرستی کے سیاسی نظریے نے ہندوستان کے تعلیم یافتہ طبقات کے تخیل کو متحرک کیا، کیونکہ یہی نظریہ یورپ کے ملکوں میں مقبول تھا اوراس میں ہندوستان کی آزادی کا روشن امکان دکھائی دیتا تھا۔ لیکن ان ملکوں میں سے کوئی بھی ہندوستان کے لیے نمونہ نہیں بن سکتا تھا کیونکہ کسی اور ملک کی آبادی میں مذہبی، نسلی، لسانی اور دیگر عوامل کی ایسی کثرت موجود نہیں تھی جیسی ہندوستان میں تھی۔ تاریخ نگاروں کی موجودہ نسل کے تجزیوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ قوم پرستی کے تصور سے تازہ تازہ آشنا ہونے کے باعث ہندوستان کے اُس وقت کے رہنما اس فرق کا پورا احساس کرنے سے قاصررہے۔
برصغیرکی کثیر گروہی آبادی کو یورپ کی قومی ریاست پر قیاس کرنے کے نتیجے میں یہ خیال پیدا ہوا کہ قومی ریاست کے طور پر کسی ملک کا استحکام اس بات پر منحصر ہے کہ اس کی رنگارنگی کو کسی نہ کسی طرح یک رنگی میں تبدیل کیا جاسکے۔ ایک لمبی کشمکش کے نتیجے میں غیر ملکی تسلط سے آزادی حاصل کرنے کے بعد تقسیم شدہ ہندوستان کے دونوں حصوں میں دیسی حکومتوں نے اپنا سفر اسی خیال کے سہارے شروع کیا۔
تاہم دونوں ملکوں کا تجربہ اس لحاظ سے مختلف رہا کہ جمہوریت کے عمل کے مسلسل جاری رہنے اور جمہوری اداروں کے مستحکم ہونے کے نتیجے میں ہندوستان نے یک رنگی کے اس غیر حقیقت پسندانہ خیال میں رفتہ رفتہ تبدیلی پیدا کی۔ دوسری طرف پاکستان میں جمہوریت کے جڑیں نہ پکڑپانے کے باعث، اور اقتدار پر بزورقابض ہوجانے والے طبقوں کے مفادات کو ترجیح حاصل ہونے کے سبب، یک رنگی پر اصرار جاری رہا اور اس نے اندوھناک نتائج پیدا کیے۔
برصغیر کے معاشرے کی رنگارنگی کے دوسرے پہلو ہماری موجودہ بحث سے خارج ہیں، لیکن یہ دیکھناخاصی دلچسپی کا باعث ہوگا کہ زبانوں کے معاملے میں یک رنگ قوم پرستی کے تصور نے کس قسم کےرویوں کو جنم دیا۔ گزشتہ دنوں مجھے اُردو اور ہندی کے پہلے بڑے افسانہ نگارمنشی پریم چند کی ایک تحریر کا اقتباس پڑھنے کا موقع ملا جس میں یہ رویہ بڑے نمایاں طور پر ظاہر ہے۔ ”اردو، ہندی اور ہندوستانی کچھ وچار” نامی مضمون میں پریم چند لکھتے ہیں:
’یہ بات سبھی لوگ مانتے ہیں کہ قوم کو مضبوط اور طاقتور بنانے کے لیے ملک میں تہذیبی اتحاد کا ہونا بہت ضروری ہے۔ اور قوم کی زبان اور اس کا رسم الخط اس تہذیبی اتحاد کا ایک خاص حصہ ہے۔ محترمہ خالدہ ادیب خانم نے اپنی ایک تقریر میں کہا تھا کہ ترک قوم اور ترکوں کے ملک کا اتحاد، ترکی زبان کے بغیر ممکن نہیں ہوسکتا تھا۔ اوراس بات میں کسی کو شبہ نہیں ہوسکتا کہ ایک قومی زبان کے بغیر کسی ملک کے وجود کا تصور ہی نہیں کیا جاسکتا۔ جب تک ہندوستان کی کوئی قومی زبان نہ ہو، تب تک وہ قومی شناخت کا دعویٰ نہیں کرسکتا‘۔
آج، اتنا عرصہ گزرنے پر یہ دیکھ لینا کچھ زیادہ مشکل نہیں کہ پریم چند نے ہندوستان سے موازنے کے لیے جس ملک کی مثال چنی وہ تہذیب، نسل یا زبان کی ہم آہنگی کے اعتبار سے ہندوستان سے یکسر مختلف تھا۔ بنگال، سندھ، کشمیر اور تامل جیسے متنوع علاقوں کو قومی زبان پر متحد کرنا عملی طور پر کس قدر ناممکن تصور ہے، اس حقیقت نے قوم پرستی کے اس رومانی بہاؤ میں کوئی خلل نہ ڈالا جو ہندوستان کی آزادی کی جدوجہد کے دنوں میں جاری وساری تھا۔
No comments:
Post a Comment