پاکستان میں اُردو کو بطور واحد قومی زبان اختیار کرنے کی کوششوں کی تاریخ ہندوستان کی لسانی سیاست سے بنیادی طور پر مختلف رہی ہے۔
اس نو ساختہ ملک میں کم ازکم دو زبانیں، بنگلہ اور سندھی، ایسی تھیں جو تعلیم کے شعبے میں اور انتظامیہ کی نچلی سطح پر کم وبیش اتنے ہی عرصے سے استعمال کی جارہی تھیں جتنے عرصے سے اُردو پنجاب میں رائج تھی۔
علاوہ ازیں ان زبانوں کے بولنے والے اپنی زبان اور اس کے کلاسیکی اور جدیدادب کو اُردو سے کسی طرح کمتر ماننے کو تیار نہ تھے۔
وہ محبِّ وطن کہلانے کے لیے پنجاب کی قائم کی ہوئی اس مثال پر عمل کرنے کو بھی تیار نہ تھے جو اس نے اپنی زبان پنجابی کے بجائےاُردو کو اختیارکرکےقائم کی تھی۔
لیکن پاکستان کی سیاست کی خصوصیات ایسی تھیں کہ یہاں اختلافی آوازوں کو اتناوزن حاصل نہیں ہوسکتا تھا جتنا ہندوستان میں تھا۔
یہی وجہ ہے کہ ایک آزاد ملک کے طور پر اس کی زندگی کے پہلے ہی سال میں یہ واضح کردیا گیا کہ اُردو کو ہر صورت میں واحد سرکاری زبان کی حیثیت حاصل ہوگی اور اس سلسلے میں کسی مخالفت کی کوئی پروانہیں کی جائے گی۔
یہ برسوں بعد 1956ءکے آئین میں ممکن ہوسکا کہ بنگلہ کو اُردو کے ساتھ ساتھ ’دوسری قومی زبان‘ کا درجہ دیا جائے۔ لیکن اقتدار میں موثر حصہ حاصل نہ ہونے کے باعث بنگلہ بولنے والوں کے لیے یہ مکن نہ تھا کہ اسے عملی صورت بھی دے سکیں۔
جو لوگ فیصلہ کرنے، پالیسیاں بنانے اور انہیں عمل میں لانے کا اختیار رکھتے تھے ان کا رویہ بدستور تحکمانہ اور حریفانہ رہا۔ مرزاظفرالحسن اس سلسلے میں سرکاری کنٹرول کے تحت چلنے والے ریڈیو پاکستان کے ڈائرکٹر جنرل زیڈاے بخاری کے رویے کا ذکر ان الفاظ میں کرتےہیں:
’1956ء کے آئینِ پاکستان میں بنگالی کو بھی قومی زبان قرار دیا گیا تو بخاری صاحب کو غم ہوا مگر سرکاری افسر تھے غم پی گئے۔ غالبًا وزارت نشریات کی ہدایت پر ریڈیو سے اُردو بنگلہ بول چال کا پروگرام شروع کرنا پڑا۔بخاری صاحب نے یہ ذمہ داری مجھے سونپی۔..... پروگرام میرے سپرد کرتے ہوئے بخاری صاحب نے فرمایا: مرزایہ نہ سمجھنا کہ تم کوئی آسان کام کرنے جارہے ہو۔ یادرکھو اس میں اُردو کا پلہ بھاری رہے ورنہ تمھیں قتل کردوں گا۔ اگر کھلم کھلایا بھونڈے پن سے اُردو کو حاوی کردیا تو پھر بنگالی تمھیں قتل کردیں گے، آج نہیں تو کل۔......اُردو سے تعلق خاطر بخاری صاحب کی بہت بڑی کمزوری تھی۔ پروگرام اُردو بنگلہ بول چال کا ذکر میں نے یہی بتانے کے لیے کیا کہ ایک ذمہ دار افسر ہوتے ہوئے بھی وہ چاہتے تھے کہ بنگلہ کے مقابلے میں اُردو کا پلہ بھاری رہے۔‘
اس اقتباس سے ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستانی سیاست دانوں اور سرکاری انتظامیہ کے ارکان نے کبھی بنگلہ زبان کو، جوعددی اعتبار سے ملک کی اکثریت کی زبان تھی، دل سے تسلیم نہیں کیا، اور مختلف زبانیں بولنے والے افراد کو ذہنی طور پر ایک دوسرے کے نزدیک لانے کا کوئی موقع برائے نام پیدا بھی ہوا تو اسے احمقانہ چال بازیوں کے ذریعے سے بے اثر بنادیا گیا۔
وسیع تر معاشرتی نقطہ نظر سے دیکھنے پر یہ رویہ اختیار کرنے کا کوئی معقول جوازنظر نہیں آتا کہ زبانیں، جو انسانوں نے ایک دوسرے سے رابطہ رکھنے کے لیے ایجاد کی ہیں،ان کے درمیان فاصلہ پیدا کرنے کے لیے استعمال کی جائیں، لیکن یہ وسیع تر نقطہ نظر اختیار کرنے میں بعض اوقات ایسے وقتی
گروہی مفادات رکاوٹ بن جاتے ہیں جو وقت گزرنے پر حیران کن حد تک بے حقیقت معلوم ہوتے ہیں۔
مرزاظفرالحسن کے اس اقتباس سےیوں تو بہت سے دلچسپ نکتے برآمد ہوتے ہیں،لیکن ان میں سب سے دلچسپ نکتہ اُردو سے ’تعلق خاطر‘ کے بارے میں ہے۔
معلوم ہوتا ہے کہ فیصلے کرنے اور ان کو نافز کرنے والوں نے پہلے دن سے یہ طے کرلیا تھا کہ پاکستان کے باشندوں کا اُردو کے سوا کسی اور زبان سے کا تعلق خاطر ہونا اول تو ممکن نہیں، اور اگر ممکن بھی ہو تو اسے سرکاری پالیسیوں کا حصہ نہیں بنایا جاسکتا۔
لگتا ہے کہ تعلق خاطر سے مراد ایسا غیر منطقی لگاؤہے جو کسی بھی قسم کے معروضی انداز فکر سے بالکل بے نیاز ہے۔ اس قسم کے لگاؤ کو کسی فرد کی نفسیاتی کمزوری کے طور پرتو قبول کیا جاسکتا ہے، لیکن مرزاظفرالحسن کے اس اقتباس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ سرکاری حیثیت سے فائدہ اٹھا کر کی جانے والی اس دھاندلی کو باقاعدہ قابل تعریف سمجھتے ہیں۔
یہ پاکستان میں اختیار کیے جانے والے سرکاری رویے کی کوئئ تنہا مثال نہیں۔ ملک میں بولی جانے والی زبانوں کے درمیان امتیاز برتنے کی یہ سوچی سمجھی پالیسی کم از کم انیس سوا کہتر تک بلاروک ٹوک جاری رہی۔ اس پالیسی سے اختلاف کرنے والوں کے لیے سرکار اور گروہی مفادات رکھنے والوں کی طرف سے ’اُردو دشمنی‘ کا الزام تیار ہی رکھا رہتا تھا، جو اسلام دشمنی اور پاکستان دشمنی کی قبیل سے تعلق رکھتا تھا۔
اگرچہ اب دوسری زبانوں کو وسائل کی تقسیم میں پہلے کی بہ نسبت زیادہ حصہ ملنے لگاہے، لیکن صورت حال میں بنیادی طور پر اب بھی کچھ زیادہ تبدیلی نہیں آئی ہے، کیونکہ مختلف زبانوں کے درمیان رشتہ ابھی تک عداوت پر مبنی سمجھا جاتا ہے۔
اس نو ساختہ ملک میں کم ازکم دو زبانیں، بنگلہ اور سندھی، ایسی تھیں جو تعلیم کے شعبے میں اور انتظامیہ کی نچلی سطح پر کم وبیش اتنے ہی عرصے سے استعمال کی جارہی تھیں جتنے عرصے سے اُردو پنجاب میں رائج تھی۔
علاوہ ازیں ان زبانوں کے بولنے والے اپنی زبان اور اس کے کلاسیکی اور جدیدادب کو اُردو سے کسی طرح کمتر ماننے کو تیار نہ تھے۔
وہ محبِّ وطن کہلانے کے لیے پنجاب کی قائم کی ہوئی اس مثال پر عمل کرنے کو بھی تیار نہ تھے جو اس نے اپنی زبان پنجابی کے بجائےاُردو کو اختیارکرکےقائم کی تھی۔
لیکن پاکستان کی سیاست کی خصوصیات ایسی تھیں کہ یہاں اختلافی آوازوں کو اتناوزن حاصل نہیں ہوسکتا تھا جتنا ہندوستان میں تھا۔
یہی وجہ ہے کہ ایک آزاد ملک کے طور پر اس کی زندگی کے پہلے ہی سال میں یہ واضح کردیا گیا کہ اُردو کو ہر صورت میں واحد سرکاری زبان کی حیثیت حاصل ہوگی اور اس سلسلے میں کسی مخالفت کی کوئی پروانہیں کی جائے گی۔
یہ برسوں بعد 1956ءکے آئین میں ممکن ہوسکا کہ بنگلہ کو اُردو کے ساتھ ساتھ ’دوسری قومی زبان‘ کا درجہ دیا جائے۔ لیکن اقتدار میں موثر حصہ حاصل نہ ہونے کے باعث بنگلہ بولنے والوں کے لیے یہ مکن نہ تھا کہ اسے عملی صورت بھی دے سکیں۔
جو لوگ فیصلہ کرنے، پالیسیاں بنانے اور انہیں عمل میں لانے کا اختیار رکھتے تھے ان کا رویہ بدستور تحکمانہ اور حریفانہ رہا۔ مرزاظفرالحسن اس سلسلے میں سرکاری کنٹرول کے تحت چلنے والے ریڈیو پاکستان کے ڈائرکٹر جنرل زیڈاے بخاری کے رویے کا ذکر ان الفاظ میں کرتےہیں:
’1956ء کے آئینِ پاکستان میں بنگالی کو بھی قومی زبان قرار دیا گیا تو بخاری صاحب کو غم ہوا مگر سرکاری افسر تھے غم پی گئے۔ غالبًا وزارت نشریات کی ہدایت پر ریڈیو سے اُردو بنگلہ بول چال کا پروگرام شروع کرنا پڑا۔بخاری صاحب نے یہ ذمہ داری مجھے سونپی۔..... پروگرام میرے سپرد کرتے ہوئے بخاری صاحب نے فرمایا: مرزایہ نہ سمجھنا کہ تم کوئی آسان کام کرنے جارہے ہو۔ یادرکھو اس میں اُردو کا پلہ بھاری رہے ورنہ تمھیں قتل کردوں گا۔ اگر کھلم کھلایا بھونڈے پن سے اُردو کو حاوی کردیا تو پھر بنگالی تمھیں قتل کردیں گے، آج نہیں تو کل۔......اُردو سے تعلق خاطر بخاری صاحب کی بہت بڑی کمزوری تھی۔ پروگرام اُردو بنگلہ بول چال کا ذکر میں نے یہی بتانے کے لیے کیا کہ ایک ذمہ دار افسر ہوتے ہوئے بھی وہ چاہتے تھے کہ بنگلہ کے مقابلے میں اُردو کا پلہ بھاری رہے۔‘
اس اقتباس سے ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستانی سیاست دانوں اور سرکاری انتظامیہ کے ارکان نے کبھی بنگلہ زبان کو، جوعددی اعتبار سے ملک کی اکثریت کی زبان تھی، دل سے تسلیم نہیں کیا، اور مختلف زبانیں بولنے والے افراد کو ذہنی طور پر ایک دوسرے کے نزدیک لانے کا کوئی موقع برائے نام پیدا بھی ہوا تو اسے احمقانہ چال بازیوں کے ذریعے سے بے اثر بنادیا گیا۔
وسیع تر معاشرتی نقطہ نظر سے دیکھنے پر یہ رویہ اختیار کرنے کا کوئی معقول جوازنظر نہیں آتا کہ زبانیں، جو انسانوں نے ایک دوسرے سے رابطہ رکھنے کے لیے ایجاد کی ہیں،ان کے درمیان فاصلہ پیدا کرنے کے لیے استعمال کی جائیں، لیکن یہ وسیع تر نقطہ نظر اختیار کرنے میں بعض اوقات ایسے وقتی
گروہی مفادات رکاوٹ بن جاتے ہیں جو وقت گزرنے پر حیران کن حد تک بے حقیقت معلوم ہوتے ہیں۔
مرزاظفرالحسن کے اس اقتباس سےیوں تو بہت سے دلچسپ نکتے برآمد ہوتے ہیں،لیکن ان میں سب سے دلچسپ نکتہ اُردو سے ’تعلق خاطر‘ کے بارے میں ہے۔
معلوم ہوتا ہے کہ فیصلے کرنے اور ان کو نافز کرنے والوں نے پہلے دن سے یہ طے کرلیا تھا کہ پاکستان کے باشندوں کا اُردو کے سوا کسی اور زبان سے کا تعلق خاطر ہونا اول تو ممکن نہیں، اور اگر ممکن بھی ہو تو اسے سرکاری پالیسیوں کا حصہ نہیں بنایا جاسکتا۔
لگتا ہے کہ تعلق خاطر سے مراد ایسا غیر منطقی لگاؤہے جو کسی بھی قسم کے معروضی انداز فکر سے بالکل بے نیاز ہے۔ اس قسم کے لگاؤ کو کسی فرد کی نفسیاتی کمزوری کے طور پرتو قبول کیا جاسکتا ہے، لیکن مرزاظفرالحسن کے اس اقتباس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ سرکاری حیثیت سے فائدہ اٹھا کر کی جانے والی اس دھاندلی کو باقاعدہ قابل تعریف سمجھتے ہیں۔
یہ پاکستان میں اختیار کیے جانے والے سرکاری رویے کی کوئئ تنہا مثال نہیں۔ ملک میں بولی جانے والی زبانوں کے درمیان امتیاز برتنے کی یہ سوچی سمجھی پالیسی کم از کم انیس سوا کہتر تک بلاروک ٹوک جاری رہی۔ اس پالیسی سے اختلاف کرنے والوں کے لیے سرکار اور گروہی مفادات رکھنے والوں کی طرف سے ’اُردو دشمنی‘ کا الزام تیار ہی رکھا رہتا تھا، جو اسلام دشمنی اور پاکستان دشمنی کی قبیل سے تعلق رکھتا تھا۔
اگرچہ اب دوسری زبانوں کو وسائل کی تقسیم میں پہلے کی بہ نسبت زیادہ حصہ ملنے لگاہے، لیکن صورت حال میں بنیادی طور پر اب بھی کچھ زیادہ تبدیلی نہیں آئی ہے، کیونکہ مختلف زبانوں کے درمیان رشتہ ابھی تک عداوت پر مبنی سمجھا جاتا ہے۔
2 comments:
mujhay yeh samjh nahi aata kay, konsi zaban bolni chahiaye.
jis sobay main jo zaban ho usko sobai satah par raaij kiya jaye.
@Tayyab
Exactly!
Yaar hamare har maslay ka hal 1940 ki Qarardade Pakistan mein hai. This country was supposed to be a Federation, lekin aaj tuk is ko centralist ideas ke mutabiq chalaya gaya! Hence we lost half of our country.
Is mulk ka to ab Khuda hi Hafiz hai!
Post a Comment