Saturday, August 18, 2007

یہ ہماری اردو زبان، دوم


مسلم حکمرانی میں اعلیٰ حکومتی طبقےکی زبان فارسی تھی

انگریز اگرچہ ہندوستان کے نوآبادیاتی حکمران تھے لیکن ان کے کیے ہوئے بعض فیصلوں نے حکمرانی کے ایسے طریقوں کو رائج کیا جو ہندوستان کے مسلمان یا غیر مسلم دیسی فرماں رواؤں کے انداز حکمرانی سے بنیادی طور پر مختلف تھے۔ سرکاری کام کاج میں فارسی کی جگہ اونچی سطح پر انگریزی کو اور انتظامیہ کی نچلی سطح پر مقامی زبانوں کو اختیار کرنے کا فیصلہ ایسا تھا جس نے بہت دور رس نتائج پیدا کیے۔

انگریزوں کا دوسرا اہم فیصلہ مقامی آبادی کی ایک خاصی بڑی تعداد کو تعلیم دینے کا تھا۔ ان دونوں فیصلوں میں انگریز حکمرانوں کے حاکمانہ مفادات یقیناًً کارفرما رہے ہوں گے، لیکن یہ دیکھنا خاصی دلچسپی کا باعث ہوسکتاہے کہ یہ ہندوستان میں حکمرانی کے روایتی طریقوں سے کس قدر مختلف تھے ۔

مغل بادشاہ اور صوبیدار حکومت کا نظم نسق چلانے کے لئے فارسی زبان استعمال کرتے تھے۔ رنجیت سنگھ کی حکومت نے بھی پنجاب میں اور اس کے باہر کے بہت سے علاقوں پر حکمرانی کے لئے فارسی ہی کو اختیار کیا ۔ اس میں کسی شبہے کی گنجائش نہیں کہ برصغیر کے کسی بھی خطے میں مقامی آبادی کی اکثریت فارسی زبان سے واقف نہ تھی لیکن حکمرانوں کو اس سے کوئی غرض نہیں تھی۔

ان کے نچلی سطح کے اہلکار رعایا سے ضرور ان کی اپنی زبانوں میں بات چیت کرتے ہوں گے، لیکن حکومت تک اپنی بات پہنچانا کسی بھی محکوم فرد کے لئےفارسی کے سوا کسی اور زبان میں ممکن نہ تھا۔ انگریزوں کی نو آبادیاتی حکومت کے لئے امن و امان کا قیام بنیادی اہمیت رکھتا تھا تاکہ وہ ہندوستان کے معاشی استحصال کا کام بغیر کسی بڑی رکاوٹ کے انجام دے سکیں اور عام لوگوں میں کسی بڑے پیمانے پر بدامنی اور شورش کو راہ نہ ملے۔ اس غرض سے انہوں نے فیصلہ کیا کہ نچلی سطح کی انتظامیہ میں مقامی زبانوں کو اختیار کیا جائے۔

رعایا کو تعلیم دینا برصغیر میں کبھی حکمرانوں کی ذمہ داری نہیں سمجھی جاتی تھی۔ لوگوں کی جو نہایت مختصر تعداد تعلیم حاصل کرتی تھی وہ اپنے وسائل سے اس کا بندوبست کرتی تھی۔ تعلیم کے معاشی محرکات دو قسم کے تھے: ایک مقصد (مثلاً برہمنوں اور مسلمان عالموں کے لئے ) یہ تھا کہ مذہبی رسم و رواج کی ضروریات پوری کی جائیں۔ دوسرا مقصد کسی نہ کسی سطح پر دربار سے وابستہ ہونا ہوتا تھا ۔

اس سلسلے میں ایک اور اہم سماجی تبدیلی کو بھی نگاہ میں رکھنا ضروری ہے۔ انگریزوں کی آمد سے پہلے کے زمانے میں کتابوں کی نقلیں ہاتھ سے لکھ کر تیار کی جاتی تھیں، اس لئے ان کی تعداد انتہائی کم ہوتی تھی اور تعلیم کا عام پھیلاؤ اس وجہ سے بھی ممکن نہ تھا۔ ہندوستان میں چھاپے خانے پہلی بار نوآبادیاتی دور میں قائم ہوئے اور اس طرح یہ بات تکنیکی طور پرممکن ہوگئی کہ لوگوں کی نسبتاً زیادہ تعداد کے لئے تعلیمی متن تیار کر کےمہیا کیے جاسکیں ۔

اردو اور ہندی کے تنازعے کو اس کے درست تناظر میں دیکھنے کے لئے اس تاریخی پس منظر پر توجہ دینا ضروری ہے۔ اس کا کچھ اندازہ اوپر بیان کئے گئے حقائق سے ہوسکتا ہے۔ تبدیلی کا یہ عمل سب سے پہلے بنگال میں شروع ہوا جہاں فارسی کی جگہ انگریزی اور بنگلہ کو اختیار کیا گیا، عام تعلیمی اداروں کی بنیاد رکھی گئی اور ان اداروں سے تعلیم حاصل کرنے والے لوگوں کو سرکاری انتظامیہ کا حصہ بنایا گیا ۔

اس عمل کا نتیجہ بنگال کی ثقافتی ترقی کی صورت میں بھی نکلا۔ جدید تعلیم یافتہ بنگلہ ادیبوں نے مقامی اصناف کو بہتر بنا کر اور نئی اصناف کو اختیار کر کے بنگلہ ادب کو دوسری ہندوستانی زبانوں کی ترقی کے لئے ایک نمونہ بنادیا۔ آگے چل کر اردو اور ہندی کے جدید ادب نے بنگلہ سے رہنمائی حاصل کی۔

اردو اور ہندی کے تنازعے کے سلسلے میں ہونے والی بحثوں کی جذباتی شدت اور تلخی سے گمان ہوتا ہے کہ شاید یہ تنازعہ پورے برصغیر پر محیط رہا ہوگا اور ہندوستانی مسلمان مجموعی طور پر اردو کے حق میں اور ہندو ہندی کے حق میں صف آرا رہے ہوں گے۔ یہ تاثر عموماً اپنی بات کی اہمیت کو بڑھانے کے سلسلے میں دانستہ طور پر بھی دیا جاتا ہے، لیکن تاریخی حقائق اس تاثر کی تصدیق نہیں کرتے۔

بنگال میں جہاں انگریزوں کا قبضہ سب سے پہلے ہوا، انتظامیہ کی نچلی سطح پر بنگلہ کو غیر متنازعہ طور پر اختیار کرلیا گیا تھا کیونکہ وہاں کسی دوسری زبان کا دعویٰ مضبوط نہ تھا۔ اسی طرح رنجیت سنگھ کی قائم کردہ ریاست کے خاتمے کے بعد جب پنجاب پر انگریزوں کی عملداری ہوئی تو وہاں مسلمانوں کی اکثریت اورسماجی اثر ورسوخ کے باعث اردو زبان کو نچلی انتظامی سطح پر اختیار کرنے میں کچھ زیادہ دقت نہ ہوئی۔ اردو اور ہندی کا تنازعہ دراصل کم و بیش اس علاقے تک محدود تھا جس پر آج کل کی اتر پردیش کی ریاست مشتمل ہے ۔

آگے چل کر اس تنازعے نے اتنی شدت اختیار کی کہ دونوں زبانوں کے طرفداروں نے اپنے اپنے موقف کو تقویت دینے کے لئے اسے ملک گیر بنانے کی کوشش کی۔ ایک طرف یوپی کے ہندوؤں میں اپنی تہذیبی شناخت کا احساس پیدا ہوا اور ان کے انتہا پسند حلقوں نے ’ہندی ، ہندو، ہندوستان‘ کا نعرہ لگایا۔ دوسری طرف اردو کو پہلے تمام ہندوستانی مسلمانوں کی تہذیبی شناخت کا حصہ قرار دیا گیا، پھر اسے اسلام سے جوڑدیا گیا اور آخر کار پاکستان سے وابستہ کردیا گیا۔

ہندی، ہندو، ہندوستان کا نعرہ ایک بے بنیاد اور خلاف حقیقت نعرہ تھا۔ نہ ہندوستان کو محض ہندوؤں پر مشتمل قرار دینا ممکن تھا اور نہ تمام ہندوؤں کی لسانی شناخت ہندی سے جوڑی جاسکتی تھی۔ اسی طرح اردو ہندوستان کے تمام مسلمانوں کی مشرکہ زبان نہیں تھی اور نہ اس تاثر کی کوئی بنیاد تھی کہ ہندوستان کی دوسری زبانوں کے مقابلے میں اردو اسلام سے زیادہ گہرا تعلق رکھتی ہے۔ یہ سب غلط فہمیاں ہندی اور اردو کے طرفداروں کے درمیان اس تندوتیز بحث سے پیدا ہوئیں جس کا فوری مقصد انگریز حکومت سے ابتدائی اور اعلٰی تعلیم کے ذریعہ کے طور پر اور انتظامیہ کی نچلی سطح پر اپنی اپنی پسند کی زبان کو منظور کرانا تھا اور اس مقصد کو حاصل کرنے کے لئے ہر قسم کی خلافِ حقیقت دلیل دینا جائز سمجھا جاتا تھا۔

باقی آئیندہ


No comments: