Friday, August 17, 2007

یہ ہماری اردو زبان، اول

یوں تو ہم لوگ یعنی برصغیر جنوبی ایشیا کے باشندے تاریخ، ملکی اور بین الاقوامی سیاست، یہاں تک کہ جغرافیہ کے معاملے میں بھی حقائق پر اپنی خواہشات کو ترجیح دینے کے عادی ہیں، لیکن ہمارے اس عمومی رویے کا شاید سب سے واضح اظہار اپنی زبان اور دیگر زبانوں کے بارے میں ہمارے تصورات سے ہوتا ہے۔

تقریباً ہر لسانی گروہ نے اپنی زبان کی قدامت اور عظمت کے سلسلے میں ایسے ایسے تصورات اپنے ذہنوں پر طاری کر رکھے ہیں جن سے کسی دوسرے لسانی گروہ کے افراد کا متفق ہونا ممکن دکھائی نہیں دیتا۔ اگر معاملہ یہیں تک رہتا تو اس کا نقصان بھی محدود رہتا۔ زیادہ سے زیادہ یہ ہوتا کہ ان تصورات کے حامل افراد حقیقت پسندانہ اور جمہوری طرز فکر سے محروم رہتے۔

اصل افسوس ناک صورت حالتب پیدا ہوتی ہے جب کسی زبان کی برتری کو قانون یا سماجی اثرورسوخ کے زور پر دوسری زبانیں بولنے والے افراد سے زبردستی منوانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ ظاہر ہے کہ اس عمل سے معاشرے میں مختلف گروہوں کے درمیان تلخی اور محاذ آرائی کو راہ ملتی ہے اور انتشار پیدا ہوتا ہے۔

ایک بنیادی حقیقت جسے ہم سب بہت آسانی سے فراموش کر دیتے ہیں یہ ہے کہ کوئی شخص اپنی زبان کا خود انتخاب نہیں کرتا۔ بالکل اسی طرح جیسے آبائی مذہب، نسل، قومیت، کھال کی رنگت اور دوسری انفرادی خصوصیات کے چناؤ میں انسان کا اپنا کوئی اختیار نہیں ہوتا۔ ان میں سے کسی بھی خصوصیت پر فخر کرنا یا شرمندہ ہونا بنیادی طور پر بے معنی اور مضحکہ خیز بات ہے۔

اٹھارہویں صدی اور اس کے بعد سے، مختلف انسانی گروہوں میں ان میں سے ایک یا کئی خصوصیات کی بنیاد پر اپنی برتری کے نظریات نے دنیا کو شدید تنازعوں اور مصیبتوں سے دوچار کیا ہے۔ اپنی انفرادی اور گروہی خصوصیات سے وابستگی محسوس کرنا انسانی شناخت کے عمل کا ناگزیر حصہ ہے اور اس سے محروم رہ کر کوئی فرد دنیا میں اپنا صحت مندانہ کردار ادا نہیں کر سکتا۔ تاہم یہ بات اکثر نظر سے اوجھل ہو جاتی ہے کہ دوسرے انسانوں کو بھی اپنی انفرادی اور گروہی خصوصیات سے وابستگی محسوس کرنے کا اتناہی حق ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ انسانی تہذیب نے اپنے طویل سفر میں جو اقدار وضع کی ہیں وہ انسانوں کے درمیان اسی حقیقت پسندانہ طرز عمل کو رائج کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔

مفادات پر مبنی گروہی سیاست عموماً ان تہذیبی اقدار کے برعکس طرز عمل اختیار کرتی ہے۔ یہ طرز عمل زبانوں کی سیاست کے معاملے میں بھی اتنا ہی واضح طور پر سامنے آتا ہے جتنا دوسری گروہی خصوصیات پر کی جانے والی سیاست کے معاملے میں۔ برصغیر میں زبانوں کی سیاست کی ایک طویل اور پیچیدہ تاریخ رہی ہے۔ اس تاریخ کا ایک اہم دور شمالی ہندوستان میں انیسویں صدی کے آغاز سے لے کر بیسویں صدی کے وسط تک کے عرصے میں اردو اور ہندی کے درمیان تنازعے پر مشتمل ہے۔
اس عرصے کا آغاز وہ زمانہ تھا جب برطانوی راج برصغیر پر اپنا قبضہ رفتہ رفتہ مضبوط کر رہا تھا۔ اس عمل کا لسانی پہلو یہ تھا کہ مختلف خطوں میں، جنہیں انتظامی طور پر پریذیڈنسی کا نام دیا گیا تھا، سرکاری کام کاج کے لیے اور ذریعہ تعلیم کے طور پر فارسی کی جگہ انگریزی اور ورنا کیولر یعنی دیسی زبانیں اختیار کی جارہی تھیں۔

شمال مغربی صوبے میں، جو اودھ کے علاقے کی شمولیت سے ہندوستان کی موجودہ ریاست اتر پردیش کا پیش رو تھا، اس عمل نے اردو اور ہندی زبانوں کے درمیان تنازعے کو منظر عام پر لانے میں اہم کردار ادا کیا۔ اس تنازعے کا مطالعہ کرنے والوں کی ایک خاصی بڑی تعداد یہ رائے رکھتی ہے کہ یہ تنازعہ دراصل انگریز نو آبادیاتی حکمرانوں کا پیدا کیا ہوا تھا۔

لیکن اس کے برعکس بہت سے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ یہ لسانی تنازعہ شمالی ہندوستان کے ہندوؤں اور مسلمانوں میں اپنی اپنی گروہی شناخت پانے کے عمل کا ایک اظہار تھا اور یہ عمل تاریخی طور پر ناگزیر تھا۔ ان دونوں آراء کے حامل افراد کے پاس اپنے اپنے موقف کے حق میں پر زور دلیلیں موجود ہیں۔ آپ ان میں سے جس رائے سے بھی اتفاق رکھتے ہوں اس بات سے انکار کرنا دشوار ہے کہ اس طویل، تلخ اور جذباتی تنازعے نے اردو اور ہندی دونوں زبانوں سے وابستگی رکھنے والے افراد میں ایک مخصوص قسم کا طرز فکر پیدا کیا ہے۔ اس طرز فکر کی بنیاد چند غیر حقیقت پسندانہ اور نقصان دہ مفروضوں پر ہے۔

ان میں پہلا مفروضہ اپنی زبان کی برتری کا ہے۔ چونکہ اپنی زبان کی برتری کو دوسروں سے تسلیم کرانا اتنا ہی دشوار ہے جیسے اپنے مذہب کی برتری کو دوسرے مذہب کے حامل لوگوں سے منوانا، چنانچہ اس مقصد کے لیے ہر قسم کے جذباتی اور خطیبانہ ہتھکنڈے اختیار کیے جاتے ہیں۔ برتری کے اس دعوے کو تاریخ کی سند فراہم کرنے کے لیے اپنی پسند کے حقائق منتخب کر کے اور ناپسندیدہ حقائق کو نظر انداز یا مسخ کر کے تاریخ کی جگہ ایک قسم کی دیو مالا کورائج کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔

دوسرا مفروضہ یہ ہے کہ ہندی اور اردو دونوں زبانیں محض انسانی گروہوں کی زبانوں سے کہیں زیادہ بڑی چیزوں کی نمائندہ ہیں۔ مثلاً ہندی زبان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ ہندوستانی قوم پرستی، ہندوستان میں ہندومت کی برتری اور بھارت ورش اور رام راج جیسے تصورات کی قائم مقام ہے۔ دوسری طرف اردو کو اسلام سے وابستہ کر کے اس سے زیادہ تقدیس عطا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے جتنی کسی بھی گروہ کی زبان کو عام طور پر حاصل ہوتی ہے۔

جہاں تک تقسیم ہند کے سلسلے میں اردو کے سیاسی کردار کا تعلق ہے، اس بارے میں سرحد کے دونوں جانب اردو سے وابستہ افراد متضاد دعوے کرتے ہیں۔ پاکستان میں اسے قیام پاکستان کی بنیاد قرار دیا جاتا ہے، جبکہ ہندوستان میں اس تاثر کی نفی کرنے کی پرزور کوشش کی جاتی ہے کہ اس نے برصغیر کی تقسیم میں کوئی کردار ادا کیا تھا۔

تیسرا مفروضہ، جو دراصل دوسرے مفروضے ہی کا شاخسانہ ہے، یہ ہے کہ بھارت ورش اور اسلام کی طرح ہندی اور اردو کو بھی مختلف سمتوں سے متعدد قسم کے خطروں کا سامنا ہے۔ اور یہ وہ مفروضہ ہے جس پر زور دے کر مفاد پرست سیاسی گروہ، سرحد کی دونوں جانب، ایسے سیاسی عمل کی راہ ہموار کرتے ہیں جو اپنی اصل میں غیر جمہوری اور معاشرے کے لیے تباہ کن ہے۔

تقیسم ہند سے پہلے اور بعد کی گروہی سیاست میں ان مفروضوں پر مشتمل طرز فکر نے جن سیاسی مسائل اور انسانی مصائب کو جنم دیا ہے ان کا معروضی جائزہ لینا نہ صرف ان تاریخی ادوار کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے بلکہ آئندہ کے لیے حقیقت پسندانہ اور جمہوری اقدار کو رائج کرنے کے لئے بھی ناگزیر ہے۔

باقی آئیندہ

No comments: