Saturday, August 25, 2007

یہ ہماری اردو زبان، چہارم

یہ خیال صرف ہری چند اور دوسرے ادیبوں تک محدود نہ تھا کہ انسانوں کے کسی گروہ کے ایک قوم بننے کے لیے ضروری ہے کہ وہ ایک زبان کو اختیار کریں اور ریاست کے ساتھ ان کا رابطہ اسی زبان کے وسیلے سے ہو۔

تمام نمایاں سیاستدان اور سیاسی گروہ اسی بنیادی خیال کے حامل تھے۔ گاندھی کا خیال تھا کہ یہ زبان محض ’ہندوستانی‘ ہو سکتی ہے (ان کے مختلف بیانات میں اس نکتے پر بہت الجھاؤ ہیں کہ ’ہندوستانی‘ سے ان کی مراد اردو تھی یا ہندی یا دونوں سے ملا کر بنائی گئی کوئی تیسری زبان جو انتظامی تقاضوں کو بھی پورا کر سکے)۔

محمد علی جناح نے پاکستان کے گورنر جنرل کی حیثیت سے بارہ مارچ انیس سو اڑتالیس کو ڈھاکہ میں جو مشہور خطاب کیا، اس میں ان کا کہنا تھا کہ ’سیاست کی کسی واحد زبان کے بغیر کوئی قوم مضبوطی سے متحد نہیں رہ سکتی نہ کام کر سکتی ہے‘۔

اس اعلان کے بعد سے انیس سو اکہتر کے واقعات تک پاکستان کی تاریخ جن راستوں سے گزری، ان پر نگاہ ڈالتے ہوئے یہ نتیجہ نکالا جا سکتا ہے کہ واحد زبان پر اصرار ہی قوم کے اتحاد میں دراڑیں ڈالنے کا ایک سبب بنا۔

اگر برطانوی دور میں اردو اور ہندی کی کشمکش موجودہ اترپردیش کے علاقے کے ہندوؤں اور مسلمانوں میں منافرت کی بنیادی وجہ کے طور پر سامنے آئی، تو واحد قومی زبان کے موضوع پر رائے عامہ پر اثر انداز ہونے والے افراد کے ان خیالات نے ہندی اور اردو کا پرچار کرنے والوں میں اس رویے کو جنم دیا جسے ان کے مخالف گروہ ’ہندی امپیرئلزم‘ اور اردو ’شاونزم‘ کہتے ہیں۔

اپنی زبان کو پورے ملک کی زبان کے طور پر دیکھنے کے جوش نے ان میں اردو یا ہندی کی اہمیت اور صلاحیت کے بارے میں بعض مبالغہ آمیز خیالات پیدا کر دیے جن کا کوئی جواز نہ تھا۔

اس رویے کی بےشمار مثالوں میں سے ایک ہمیں مرزا حیرت دہلوی کی کتاب ’چراغ دہلی‘ کی ابتدا میں ان الفاظ میں ملتی ہے: ’ہندوستانی کہنے سے یہ بات معلوم ہو جائے گی کہ یہ زبان، جو اپنے دوسرے نام اردو کے ساتھ مشہور ہے، تمام ہندوستان کی زبان ہے۔ کسی زبان کی مجال نہیں کہ اس کو آنکھ بھر کے بھی دیکھ سکے‘۔

معلوم ہوتا ہے کہ اردو اور ہندی کی باہمی چپقلش نے دونوں زبانوں کا پرچار کرنے والوں کے ذہنوں میں یہ بات راسخ کر دی تھی کہ ان کی زبان کا کسی بھی دوسری زبان سے رشتہ صرف حریفانہ ہی ہو سکتا ہے۔

اس بات نے آگے چل کر ہندوستان اور پاکستان کی سیاست پر گہرے اثرات مرتب کیے۔

ہندوستان میں جس علاقے کو ’ہندی بیلٹ‘ کا نام دیا جاتا ہے وہ دہلی سے لے کر مشرق میں بنگال کی سرحد تک واقع ہے۔ اس علاقے نے، جس میں ہندوستان کی سب سے زیادہ آبادی والی ریاست اترپردیش بھی شامل ہے، اپنے سیاسی اثر و رسوخ کو لسانی یک رنگی کے فروغ کے لیے بھی استعمال کرنے کی کوشش کی۔

پاکستان کے قیام کے بعد یہاں کی سیاست میں یہی، بلکہ اس سے کہیں زیادہ فیصلہ کن اثر و رسوخ صوبہ پنجاب کو حاصل ہوا جہاں اردو ایک صدی سے زیادہ عرصے سے تعلیم اور نچلی سطح کی انتظامیہ کی زبان کے طور پر استعمال ہوتی رہی تھی۔

پاکستان کی سیاست میں لسانی یک رنگی پر اصرار اور بھی زیادہ شدید تھا کیونکہ کسی عجیب و غریب منطق کے ذریعے اردو زبان اختیار کرنے کو اسلام اور پاکستان سے وابستگی کی کسوٹی قرار دے دیا گیا تھا اور باقی زبانوں کو اس اعتبار سے اردو سے کمتر گردانا جاتا تھا۔

دونوں ملکوں میں ہندی اور اردو کو قومی یا سرکاری زبان کے طور پر اختیار کرنے کی کوششوں پر ایک نظر ڈالنے سے رویے کا وہ فرق بھی سامنے آ سکتا ہےجو ان ملکوں کی سیاست میں وفاقی نظام کے بارے میں رفتہ رفتہ پیدا ہوا۔

پریم چند کے پوتے آلوک رائے نے، جو معروف ادیب اور استاد ہیں، اپنی مختصر لیکن غیر معمولی انگریزی کتاب ’ہندی نیشنلزم‘ میں ہندوستان کی لسانی سیاست کا خاکہ پیش کیا ہے۔

ان کے مطابق انیس سو پچاس میں جب ہندوستان کا آئین تیار کیا جا رہا تھا، زبان کے مسئلے پر ہونے والی بحث نے اس قدر شدت اور تلخی اختیار کی کہ اس بحث کو اس وقت تک کے لیے ملتوی کرنے کا فیصلہ کرنا پڑا جب تک دوسرے اہم امور طے نہ کر لیے جائیں۔

جن علاقوں کی زبان ہندی نہیں تھی، خاص طور پر جنوبی ہندوستان کے علاقے، وہاں کے نمائندے ’ہندی والوں‘ کے اس دعوے کو تسلیم کرنے کو تیار نہ تھے کہ یہ زبان واحد قومی زبان کی حیثیت حاصل کرنے کی مستحق ہے۔

ایک طویل مباحثے کے بعد طے کیا گیا کہ ملک کی تمام بڑی زبانوں کو قومی زبانیں تسلیم کیا جائے، ہندی کو ’انڈین یونین کی سرکاری زبان‘ کہا جائے اور انگریزی کو ’مددگار اضافی سرکاری زبان‘ کی حیثیت حاصل ہو۔

تاہم ہندی کو یہ حیثیت عطا کرنے کا معاملہ پندرہ برس کے لیے ملتوی کر دیا گیا تاکہ اس عرصے میں ان لوگوں کو ہندی سکھائی جا سکے جو اس سے ناواقف ہیں۔

لیکن انیس سو پینسٹھ کی اس موعودہ تاریخ کے آنے تک ہندوستان میں وفاقی سیاست بہت سی منزلیں طے کر چکی تھی۔

انیس سو چھپن میں ہندوستانی ریاستوں کو لسانی بنیاد پر تشکیل دیا جا چکا تھا اور ان میں آباد گروہوں کی لسانی شناخت رفتہ رفتہ مستحکم ہو رہی تھی۔

’ہندی والے‘ بہرحال اس مبارک ساعت کے بےتابی سے منتظر تھے اور پورے ہندوستان کی زبان ہونے کے دعوے سے اردو کی دست برداری کے بعد انہیں سرکاری زبان کے طور پر اپنا حریف صرف انگریزی کی صورت میں دکھائی دیتا تھا۔

انیس سو ساٹھ کی دہائی کے ابتدائی برسوں میں ہندی بولنے والی ریاستوں میں ’انگریزی ہٹاؤ‘ کی تحریک شروع کی گئی۔

ہندی کے مخالفوں، خاص طور پر جنوبی ریاست تامل ناڈو کے لوگوں کو، اس تحریک میں پورے ملک پر ہندی کو مسلط کرنے کی کوشش دکھائی دی اور انہوں نے اس کی شدید مخالفت شروع کر دی۔

یہ مخالفت اس حد تک پہنچی کہ تامل ناڈو میں تشدد آمیز ہنگامے بھڑک اٹھے اور کئی افراد نے خود سوزی کر لی۔ اس مخالفت کے باعث انیس سو پینسٹھ میں ہندی کو آئین کی رو سے جو حیثیت حاصل ہونے والی تھی، اس کا نفاذ نہیں ہو سکا۔

بالآخر انیس سو سڑسٹھ میں کی جانے والی ایک آئینی ترمیم نے باقاعدہ طور پر یہ بات تسلیم کر لی کہ جب تک انڈین یونین کی ایک بھی ریاست اس کے خلاف رائے رکھتی ہے، ہندی کو واحد سرکاری زبان کا درجہ نہیں دیا جائے گا۔

Sunday, August 19, 2007

یہ ہماری اردو زبان، سوئم

برصغیر کے تاریخ دانوں نے اس بات کی نشان دہی کی ہے کہ ان واقعات کی بنیاد جنھوں نے آگے چل کر انیس سو سینتالیس کی تقسیم کی راہ ہموار کی، اس وقت پڑگئی تھی جب موجودہ یوپی کےعلاقے میں نچلی سطح کی انتظامی زبان کے مسئلے پر مسلمانوں اور ہندوؤں کے درمیان کشمکش شروع ہوئی۔

یہ کشمکش اپنی ظاہری شکل میں مذہبی نہیں بلکہ لسانی تھی، لیکن اس سے یہ نتیجہ نکالنا غیر محتاط عمل ہوگا کہ مسلمانوں اور ہندوؤں کے اختلافات میں بنیادی حیثیت زبان کے مسئلے کو یا نچلی سطح کی سرکاری نوکریوں کے مسئلے کو حاصل تھی۔

حکمرانی کے نئے طریقوں کے رائج ہونے اور تعلیم کا چرچا عام ہونے کے نتیجے میں دنیا کے تمام خطوں کی طرح ہندوستان کے مختلف علاقوں میں بھی آبادی کے ہر قسم کے گروہوں میں اپنی شناخت کا احساس پیدا ہونا فطری عمل تھا، اوراس کے ساتھ ساتھ ان کےدرمیان باہمی اختلافات کا سامنے آنا بھی اسی عمل کا حصہ تھا۔

آج یہ سوچ کر حیرت ہوتی ہے کہ کس طرح ایک ایسا قضیہ جو کسی بھی طرح پورے ہندوستان پر بلکہ اس مخصوص علاقے کے تمام لوگوں پر بھی براہِ راست اثرانداز ہونے کی صلاحیت نہ رکھتا تھا، رفتہ رفتہ اتنی اہمیت اور شدت اختیار کرگیا کہ اس نے ہندو مسلم سیاست کے خدوخیال متعین کیے۔

ہندوستان کے کسی اور علاقے میں اردو اور ہندی کے درمیان اس قسم کی مسابقت نہ تھی۔ بنگال، گجرات، کیرالا، سندھ اور دوسرے بہت سے علاقوں میں مسلمانوں اور ہندوؤں کی زبان ایک تھی اور ان کے درمیان زبان کے مسئلے پرکوئی اختلاف نہ تھا،اگرچہ دوسرے بہت سے معاشرتی اور تہذیبی نوعیت کے اختلافات یقیناً موجود تھے۔

جہاں تک پنجاب کا تعلق ہے (جس میں مشرقی اور مغربی پنجاب کے علاوہ پورا موجودہ شمال مغربی سرحدی صوبہ بھی شامل تھا اور جہاں مسلمان مجموعی طرر پر اکثریت میں تھے) وہاں کی مقامی آبادی میں فیصلہ کرنے کی قوت جن لوگوں کے پاس تھی انہوں نے اپنی مادری زبانوں کے مقابلے میں اردو کو ابتدائی تعلیم اور نچلی انتظامی سطح پر سرکاری زبان کے طور پر اختیار کرلیا تھا اور اس علاقے میں اردو کو ہندی یا کسی مقامی زبان کی طرف سے کوئی چیلنج درپیش نہ تھا۔

اردو اور ہندی کا جھگڑا ہندوستان کی تقسیم کا بنیادی سبب تھا یا نہیں، یہ تاریخ سے اپنی اپنی پسند کا نتیجہ برآمد کرنے کے مترادف ہے، لیکن یہ بات آسانی سے محسوس کی جاسکتی ہے کہ اس اختلاف نے بہت سے ایسے رویوں کو جنم دیا جو بعد کے زمانے میں نہایت سخت جان ثابت ہوئے اور آج بھی موجودہیں۔ تاہم، اس قضیے کے دور رس اثرات کا جائزہ لینے سے پہلے یہ بات بھی غور کے قابل ہے کہ غیر ملکی نوآبادیاتی تسلط کے رفتہ رفتہ مستحکم ہوتے ہوئے احساس نےہندوستانی آبادی کے مختلف حصوں کو جس سیاسی نظریے کو اختیار کرنے کی طرف مائل کیا وہ قوم پرستی کا تصور تھا اور اس نے بھی برصغیر کے سیاسی ماحول کو ایک مخصوص طرز میں ڈھال دیا۔

مغربی تعلیم سے متعارف ہونے کے نتیجے میں قوم پرستی کے سیاسی نظریے نے ہندوستان کے تعلیم یافتہ طبقات کے تخیل کو متحرک کیا، کیونکہ یہی نظریہ یورپ کے ملکوں میں مقبول تھا اوراس میں ہندوستان کی آزادی کا روشن امکان دکھائی دیتا تھا۔ لیکن ان ملکوں میں سے کوئی بھی ہندوستان کے لیے نمونہ نہیں بن سکتا تھا کیونکہ کسی اور ملک کی آبادی میں مذہبی، نسلی، لسانی اور دیگر عوامل کی ایسی کثرت موجود نہیں تھی جیسی ہندوستان میں تھی۔ تاریخ نگاروں کی موجودہ نسل کے تجزیوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ قوم پرستی کے تصور سے تازہ تازہ آشنا ہونے کے باعث ہندوستان کے اُس وقت کے رہنما اس فرق کا پورا احساس کرنے سے قاصررہے۔

برصغیرکی کثیر گروہی آبادی کو یورپ کی قومی ریاست پر قیاس کرنے کے نتیجے میں یہ خیال پیدا ہوا کہ قومی ریاست کے طور پر کسی ملک کا استحکام اس بات پر منحصر ہے کہ اس کی رنگارنگی کو کسی نہ کسی طرح یک رنگی میں تبدیل کیا جاسکے۔ ایک لمبی کشمکش کے نتیجے میں غیر ملکی تسلط سے آزادی حاصل کرنے کے بعد تقسیم شدہ ہندوستان کے دونوں حصوں میں دیسی حکومتوں نے اپنا سفر اسی خیال کے سہارے شروع کیا۔

تاہم دونوں ملکوں کا تجربہ اس لحاظ سے مختلف رہا کہ جمہوریت کے عمل کے مسلسل جاری رہنے اور جمہوری اداروں کے مستحکم ہونے کے نتیجے میں ہندوستان نے یک رنگی کے اس غیر حقیقت پسندانہ خیال میں رفتہ رفتہ تبدیلی پیدا کی۔ دوسری طرف پاکستان میں جمہوریت کے جڑیں نہ پکڑپانے کے باعث، اور اقتدار پر بزورقابض ہوجانے والے طبقوں کے مفادات کو ترجیح حاصل ہونے کے سبب، یک رنگی پر اصرار جاری رہا اور اس نے اندوھناک نتائج پیدا کیے۔

برصغیر کے معاشرے کی رنگارنگی کے دوسرے پہلو ہماری موجودہ بحث سے خارج ہیں، لیکن یہ دیکھناخاصی دلچسپی کا باعث ہوگا کہ زبانوں کے معاملے میں یک رنگ قوم پرستی کے تصور نے کس قسم کےرویوں کو جنم دیا۔ گزشتہ دنوں مجھے اُردو اور ہندی کے پہلے بڑے افسانہ نگارمنشی پریم چند کی ایک تحریر کا اقتباس پڑھنے کا موقع ملا جس میں یہ رویہ بڑے نمایاں طور پر ظاہر ہے۔ ”اردو، ہندی اور ہندوستانی کچھ وچار” نامی مضمون میں پریم چند لکھتے ہیں:

’یہ بات سبھی لوگ مانتے ہیں کہ قوم کو مضبوط اور طاقتور بنانے کے لیے ملک میں تہذیبی اتحاد کا ہونا بہت ضروری ہے۔ اور قوم کی زبان اور اس کا رسم الخط اس تہذیبی اتحاد کا ایک خاص حصہ ہے۔ محترمہ خالدہ ادیب خانم نے اپنی ایک تقریر میں کہا تھا کہ ترک قوم اور ترکوں کے ملک کا اتحاد، ترکی زبان کے بغیر ممکن نہیں ہوسکتا تھا۔ اوراس بات میں کسی کو شبہ نہیں ہوسکتا کہ ایک قومی زبان کے بغیر کسی ملک کے وجود کا تصور ہی نہیں کیا جاسکتا۔ جب تک ہندوستان کی کوئی قومی زبان نہ ہو، تب تک وہ قومی شناخت کا دعویٰ نہیں کرسکتا‘۔

آج، اتنا عرصہ گزرنے پر یہ دیکھ لینا کچھ زیادہ مشکل نہیں کہ پریم چند نے ہندوستان سے موازنے کے لیے جس ملک کی مثال چنی وہ تہذیب، نسل یا زبان کی ہم آہنگی کے اعتبار سے ہندوستان سے یکسر مختلف تھا۔ بنگال، سندھ، کشمیر اور تامل جیسے متنوع علاقوں کو قومی زبان پر متحد کرنا عملی طور پر کس قدر ناممکن تصور ہے، اس حقیقت نے قوم پرستی کے اس رومانی بہاؤ میں کوئی خلل نہ ڈالا جو ہندوستان کی آزادی کی جدوجہد کے دنوں میں جاری وساری تھا۔

Saturday, August 18, 2007

یہ ہماری اردو زبان، دوم


مسلم حکمرانی میں اعلیٰ حکومتی طبقےکی زبان فارسی تھی

انگریز اگرچہ ہندوستان کے نوآبادیاتی حکمران تھے لیکن ان کے کیے ہوئے بعض فیصلوں نے حکمرانی کے ایسے طریقوں کو رائج کیا جو ہندوستان کے مسلمان یا غیر مسلم دیسی فرماں رواؤں کے انداز حکمرانی سے بنیادی طور پر مختلف تھے۔ سرکاری کام کاج میں فارسی کی جگہ اونچی سطح پر انگریزی کو اور انتظامیہ کی نچلی سطح پر مقامی زبانوں کو اختیار کرنے کا فیصلہ ایسا تھا جس نے بہت دور رس نتائج پیدا کیے۔

انگریزوں کا دوسرا اہم فیصلہ مقامی آبادی کی ایک خاصی بڑی تعداد کو تعلیم دینے کا تھا۔ ان دونوں فیصلوں میں انگریز حکمرانوں کے حاکمانہ مفادات یقیناًً کارفرما رہے ہوں گے، لیکن یہ دیکھنا خاصی دلچسپی کا باعث ہوسکتاہے کہ یہ ہندوستان میں حکمرانی کے روایتی طریقوں سے کس قدر مختلف تھے ۔

مغل بادشاہ اور صوبیدار حکومت کا نظم نسق چلانے کے لئے فارسی زبان استعمال کرتے تھے۔ رنجیت سنگھ کی حکومت نے بھی پنجاب میں اور اس کے باہر کے بہت سے علاقوں پر حکمرانی کے لئے فارسی ہی کو اختیار کیا ۔ اس میں کسی شبہے کی گنجائش نہیں کہ برصغیر کے کسی بھی خطے میں مقامی آبادی کی اکثریت فارسی زبان سے واقف نہ تھی لیکن حکمرانوں کو اس سے کوئی غرض نہیں تھی۔

ان کے نچلی سطح کے اہلکار رعایا سے ضرور ان کی اپنی زبانوں میں بات چیت کرتے ہوں گے، لیکن حکومت تک اپنی بات پہنچانا کسی بھی محکوم فرد کے لئےفارسی کے سوا کسی اور زبان میں ممکن نہ تھا۔ انگریزوں کی نو آبادیاتی حکومت کے لئے امن و امان کا قیام بنیادی اہمیت رکھتا تھا تاکہ وہ ہندوستان کے معاشی استحصال کا کام بغیر کسی بڑی رکاوٹ کے انجام دے سکیں اور عام لوگوں میں کسی بڑے پیمانے پر بدامنی اور شورش کو راہ نہ ملے۔ اس غرض سے انہوں نے فیصلہ کیا کہ نچلی سطح کی انتظامیہ میں مقامی زبانوں کو اختیار کیا جائے۔

رعایا کو تعلیم دینا برصغیر میں کبھی حکمرانوں کی ذمہ داری نہیں سمجھی جاتی تھی۔ لوگوں کی جو نہایت مختصر تعداد تعلیم حاصل کرتی تھی وہ اپنے وسائل سے اس کا بندوبست کرتی تھی۔ تعلیم کے معاشی محرکات دو قسم کے تھے: ایک مقصد (مثلاً برہمنوں اور مسلمان عالموں کے لئے ) یہ تھا کہ مذہبی رسم و رواج کی ضروریات پوری کی جائیں۔ دوسرا مقصد کسی نہ کسی سطح پر دربار سے وابستہ ہونا ہوتا تھا ۔

اس سلسلے میں ایک اور اہم سماجی تبدیلی کو بھی نگاہ میں رکھنا ضروری ہے۔ انگریزوں کی آمد سے پہلے کے زمانے میں کتابوں کی نقلیں ہاتھ سے لکھ کر تیار کی جاتی تھیں، اس لئے ان کی تعداد انتہائی کم ہوتی تھی اور تعلیم کا عام پھیلاؤ اس وجہ سے بھی ممکن نہ تھا۔ ہندوستان میں چھاپے خانے پہلی بار نوآبادیاتی دور میں قائم ہوئے اور اس طرح یہ بات تکنیکی طور پرممکن ہوگئی کہ لوگوں کی نسبتاً زیادہ تعداد کے لئے تعلیمی متن تیار کر کےمہیا کیے جاسکیں ۔

اردو اور ہندی کے تنازعے کو اس کے درست تناظر میں دیکھنے کے لئے اس تاریخی پس منظر پر توجہ دینا ضروری ہے۔ اس کا کچھ اندازہ اوپر بیان کئے گئے حقائق سے ہوسکتا ہے۔ تبدیلی کا یہ عمل سب سے پہلے بنگال میں شروع ہوا جہاں فارسی کی جگہ انگریزی اور بنگلہ کو اختیار کیا گیا، عام تعلیمی اداروں کی بنیاد رکھی گئی اور ان اداروں سے تعلیم حاصل کرنے والے لوگوں کو سرکاری انتظامیہ کا حصہ بنایا گیا ۔

اس عمل کا نتیجہ بنگال کی ثقافتی ترقی کی صورت میں بھی نکلا۔ جدید تعلیم یافتہ بنگلہ ادیبوں نے مقامی اصناف کو بہتر بنا کر اور نئی اصناف کو اختیار کر کے بنگلہ ادب کو دوسری ہندوستانی زبانوں کی ترقی کے لئے ایک نمونہ بنادیا۔ آگے چل کر اردو اور ہندی کے جدید ادب نے بنگلہ سے رہنمائی حاصل کی۔

اردو اور ہندی کے تنازعے کے سلسلے میں ہونے والی بحثوں کی جذباتی شدت اور تلخی سے گمان ہوتا ہے کہ شاید یہ تنازعہ پورے برصغیر پر محیط رہا ہوگا اور ہندوستانی مسلمان مجموعی طور پر اردو کے حق میں اور ہندو ہندی کے حق میں صف آرا رہے ہوں گے۔ یہ تاثر عموماً اپنی بات کی اہمیت کو بڑھانے کے سلسلے میں دانستہ طور پر بھی دیا جاتا ہے، لیکن تاریخی حقائق اس تاثر کی تصدیق نہیں کرتے۔

بنگال میں جہاں انگریزوں کا قبضہ سب سے پہلے ہوا، انتظامیہ کی نچلی سطح پر بنگلہ کو غیر متنازعہ طور پر اختیار کرلیا گیا تھا کیونکہ وہاں کسی دوسری زبان کا دعویٰ مضبوط نہ تھا۔ اسی طرح رنجیت سنگھ کی قائم کردہ ریاست کے خاتمے کے بعد جب پنجاب پر انگریزوں کی عملداری ہوئی تو وہاں مسلمانوں کی اکثریت اورسماجی اثر ورسوخ کے باعث اردو زبان کو نچلی انتظامی سطح پر اختیار کرنے میں کچھ زیادہ دقت نہ ہوئی۔ اردو اور ہندی کا تنازعہ دراصل کم و بیش اس علاقے تک محدود تھا جس پر آج کل کی اتر پردیش کی ریاست مشتمل ہے ۔

آگے چل کر اس تنازعے نے اتنی شدت اختیار کی کہ دونوں زبانوں کے طرفداروں نے اپنے اپنے موقف کو تقویت دینے کے لئے اسے ملک گیر بنانے کی کوشش کی۔ ایک طرف یوپی کے ہندوؤں میں اپنی تہذیبی شناخت کا احساس پیدا ہوا اور ان کے انتہا پسند حلقوں نے ’ہندی ، ہندو، ہندوستان‘ کا نعرہ لگایا۔ دوسری طرف اردو کو پہلے تمام ہندوستانی مسلمانوں کی تہذیبی شناخت کا حصہ قرار دیا گیا، پھر اسے اسلام سے جوڑدیا گیا اور آخر کار پاکستان سے وابستہ کردیا گیا۔

ہندی، ہندو، ہندوستان کا نعرہ ایک بے بنیاد اور خلاف حقیقت نعرہ تھا۔ نہ ہندوستان کو محض ہندوؤں پر مشتمل قرار دینا ممکن تھا اور نہ تمام ہندوؤں کی لسانی شناخت ہندی سے جوڑی جاسکتی تھی۔ اسی طرح اردو ہندوستان کے تمام مسلمانوں کی مشرکہ زبان نہیں تھی اور نہ اس تاثر کی کوئی بنیاد تھی کہ ہندوستان کی دوسری زبانوں کے مقابلے میں اردو اسلام سے زیادہ گہرا تعلق رکھتی ہے۔ یہ سب غلط فہمیاں ہندی اور اردو کے طرفداروں کے درمیان اس تندوتیز بحث سے پیدا ہوئیں جس کا فوری مقصد انگریز حکومت سے ابتدائی اور اعلٰی تعلیم کے ذریعہ کے طور پر اور انتظامیہ کی نچلی سطح پر اپنی اپنی پسند کی زبان کو منظور کرانا تھا اور اس مقصد کو حاصل کرنے کے لئے ہر قسم کی خلافِ حقیقت دلیل دینا جائز سمجھا جاتا تھا۔

باقی آئیندہ


Friday, August 17, 2007

یہ ہماری اردو زبان، اول

یوں تو ہم لوگ یعنی برصغیر جنوبی ایشیا کے باشندے تاریخ، ملکی اور بین الاقوامی سیاست، یہاں تک کہ جغرافیہ کے معاملے میں بھی حقائق پر اپنی خواہشات کو ترجیح دینے کے عادی ہیں، لیکن ہمارے اس عمومی رویے کا شاید سب سے واضح اظہار اپنی زبان اور دیگر زبانوں کے بارے میں ہمارے تصورات سے ہوتا ہے۔

تقریباً ہر لسانی گروہ نے اپنی زبان کی قدامت اور عظمت کے سلسلے میں ایسے ایسے تصورات اپنے ذہنوں پر طاری کر رکھے ہیں جن سے کسی دوسرے لسانی گروہ کے افراد کا متفق ہونا ممکن دکھائی نہیں دیتا۔ اگر معاملہ یہیں تک رہتا تو اس کا نقصان بھی محدود رہتا۔ زیادہ سے زیادہ یہ ہوتا کہ ان تصورات کے حامل افراد حقیقت پسندانہ اور جمہوری طرز فکر سے محروم رہتے۔

اصل افسوس ناک صورت حالتب پیدا ہوتی ہے جب کسی زبان کی برتری کو قانون یا سماجی اثرورسوخ کے زور پر دوسری زبانیں بولنے والے افراد سے زبردستی منوانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ ظاہر ہے کہ اس عمل سے معاشرے میں مختلف گروہوں کے درمیان تلخی اور محاذ آرائی کو راہ ملتی ہے اور انتشار پیدا ہوتا ہے۔

ایک بنیادی حقیقت جسے ہم سب بہت آسانی سے فراموش کر دیتے ہیں یہ ہے کہ کوئی شخص اپنی زبان کا خود انتخاب نہیں کرتا۔ بالکل اسی طرح جیسے آبائی مذہب، نسل، قومیت، کھال کی رنگت اور دوسری انفرادی خصوصیات کے چناؤ میں انسان کا اپنا کوئی اختیار نہیں ہوتا۔ ان میں سے کسی بھی خصوصیت پر فخر کرنا یا شرمندہ ہونا بنیادی طور پر بے معنی اور مضحکہ خیز بات ہے۔

اٹھارہویں صدی اور اس کے بعد سے، مختلف انسانی گروہوں میں ان میں سے ایک یا کئی خصوصیات کی بنیاد پر اپنی برتری کے نظریات نے دنیا کو شدید تنازعوں اور مصیبتوں سے دوچار کیا ہے۔ اپنی انفرادی اور گروہی خصوصیات سے وابستگی محسوس کرنا انسانی شناخت کے عمل کا ناگزیر حصہ ہے اور اس سے محروم رہ کر کوئی فرد دنیا میں اپنا صحت مندانہ کردار ادا نہیں کر سکتا۔ تاہم یہ بات اکثر نظر سے اوجھل ہو جاتی ہے کہ دوسرے انسانوں کو بھی اپنی انفرادی اور گروہی خصوصیات سے وابستگی محسوس کرنے کا اتناہی حق ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ انسانی تہذیب نے اپنے طویل سفر میں جو اقدار وضع کی ہیں وہ انسانوں کے درمیان اسی حقیقت پسندانہ طرز عمل کو رائج کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔

مفادات پر مبنی گروہی سیاست عموماً ان تہذیبی اقدار کے برعکس طرز عمل اختیار کرتی ہے۔ یہ طرز عمل زبانوں کی سیاست کے معاملے میں بھی اتنا ہی واضح طور پر سامنے آتا ہے جتنا دوسری گروہی خصوصیات پر کی جانے والی سیاست کے معاملے میں۔ برصغیر میں زبانوں کی سیاست کی ایک طویل اور پیچیدہ تاریخ رہی ہے۔ اس تاریخ کا ایک اہم دور شمالی ہندوستان میں انیسویں صدی کے آغاز سے لے کر بیسویں صدی کے وسط تک کے عرصے میں اردو اور ہندی کے درمیان تنازعے پر مشتمل ہے۔
اس عرصے کا آغاز وہ زمانہ تھا جب برطانوی راج برصغیر پر اپنا قبضہ رفتہ رفتہ مضبوط کر رہا تھا۔ اس عمل کا لسانی پہلو یہ تھا کہ مختلف خطوں میں، جنہیں انتظامی طور پر پریذیڈنسی کا نام دیا گیا تھا، سرکاری کام کاج کے لیے اور ذریعہ تعلیم کے طور پر فارسی کی جگہ انگریزی اور ورنا کیولر یعنی دیسی زبانیں اختیار کی جارہی تھیں۔

شمال مغربی صوبے میں، جو اودھ کے علاقے کی شمولیت سے ہندوستان کی موجودہ ریاست اتر پردیش کا پیش رو تھا، اس عمل نے اردو اور ہندی زبانوں کے درمیان تنازعے کو منظر عام پر لانے میں اہم کردار ادا کیا۔ اس تنازعے کا مطالعہ کرنے والوں کی ایک خاصی بڑی تعداد یہ رائے رکھتی ہے کہ یہ تنازعہ دراصل انگریز نو آبادیاتی حکمرانوں کا پیدا کیا ہوا تھا۔

لیکن اس کے برعکس بہت سے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ یہ لسانی تنازعہ شمالی ہندوستان کے ہندوؤں اور مسلمانوں میں اپنی اپنی گروہی شناخت پانے کے عمل کا ایک اظہار تھا اور یہ عمل تاریخی طور پر ناگزیر تھا۔ ان دونوں آراء کے حامل افراد کے پاس اپنے اپنے موقف کے حق میں پر زور دلیلیں موجود ہیں۔ آپ ان میں سے جس رائے سے بھی اتفاق رکھتے ہوں اس بات سے انکار کرنا دشوار ہے کہ اس طویل، تلخ اور جذباتی تنازعے نے اردو اور ہندی دونوں زبانوں سے وابستگی رکھنے والے افراد میں ایک مخصوص قسم کا طرز فکر پیدا کیا ہے۔ اس طرز فکر کی بنیاد چند غیر حقیقت پسندانہ اور نقصان دہ مفروضوں پر ہے۔

ان میں پہلا مفروضہ اپنی زبان کی برتری کا ہے۔ چونکہ اپنی زبان کی برتری کو دوسروں سے تسلیم کرانا اتنا ہی دشوار ہے جیسے اپنے مذہب کی برتری کو دوسرے مذہب کے حامل لوگوں سے منوانا، چنانچہ اس مقصد کے لیے ہر قسم کے جذباتی اور خطیبانہ ہتھکنڈے اختیار کیے جاتے ہیں۔ برتری کے اس دعوے کو تاریخ کی سند فراہم کرنے کے لیے اپنی پسند کے حقائق منتخب کر کے اور ناپسندیدہ حقائق کو نظر انداز یا مسخ کر کے تاریخ کی جگہ ایک قسم کی دیو مالا کورائج کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔

دوسرا مفروضہ یہ ہے کہ ہندی اور اردو دونوں زبانیں محض انسانی گروہوں کی زبانوں سے کہیں زیادہ بڑی چیزوں کی نمائندہ ہیں۔ مثلاً ہندی زبان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ ہندوستانی قوم پرستی، ہندوستان میں ہندومت کی برتری اور بھارت ورش اور رام راج جیسے تصورات کی قائم مقام ہے۔ دوسری طرف اردو کو اسلام سے وابستہ کر کے اس سے زیادہ تقدیس عطا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے جتنی کسی بھی گروہ کی زبان کو عام طور پر حاصل ہوتی ہے۔

جہاں تک تقسیم ہند کے سلسلے میں اردو کے سیاسی کردار کا تعلق ہے، اس بارے میں سرحد کے دونوں جانب اردو سے وابستہ افراد متضاد دعوے کرتے ہیں۔ پاکستان میں اسے قیام پاکستان کی بنیاد قرار دیا جاتا ہے، جبکہ ہندوستان میں اس تاثر کی نفی کرنے کی پرزور کوشش کی جاتی ہے کہ اس نے برصغیر کی تقسیم میں کوئی کردار ادا کیا تھا۔

تیسرا مفروضہ، جو دراصل دوسرے مفروضے ہی کا شاخسانہ ہے، یہ ہے کہ بھارت ورش اور اسلام کی طرح ہندی اور اردو کو بھی مختلف سمتوں سے متعدد قسم کے خطروں کا سامنا ہے۔ اور یہ وہ مفروضہ ہے جس پر زور دے کر مفاد پرست سیاسی گروہ، سرحد کی دونوں جانب، ایسے سیاسی عمل کی راہ ہموار کرتے ہیں جو اپنی اصل میں غیر جمہوری اور معاشرے کے لیے تباہ کن ہے۔

تقیسم ہند سے پہلے اور بعد کی گروہی سیاست میں ان مفروضوں پر مشتمل طرز فکر نے جن سیاسی مسائل اور انسانی مصائب کو جنم دیا ہے ان کا معروضی جائزہ لینا نہ صرف ان تاریخی ادوار کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے بلکہ آئندہ کے لیے حقیقت پسندانہ اور جمہوری اقدار کو رائج کرنے کے لئے بھی ناگزیر ہے۔

باقی آئیندہ

Tuesday, August 07, 2007

Congratulations to the Dream-Build-Play Winnners......








The judges have weighed in and the final round of judging has concluded.
In a surprise outcome, 4 offers to publish on Xbox LIVE Arcade are being
extended – all 4 First Place and Second Place winners now have a
chance to sign publishing agreements with Xbox LIVE Arcade!
Congratulations to the creators of Blazing Birds, The Dishwasher:
Dead Samurai, Gravitron Ultra and Yo Ho Kablammo! on their
placement and exciting opportunity. Congratulations as well to the
16 other winners placing Third in Dream-Build-Play!